فروغِ علم کے ساتھ خدمتِ انسانیت کا روشن ستارا
اقراء ریئل اسلامک اسکول کے روحِ رواں اور مّحبانِ کراچی (پاکستان) کے چیئرمین جناب حافظ محمد ارشد رفیق سے ایک دلچسپ ملاقات
کامیاب لوگ یونہی کامیابی کی شاہراہ پر آگے نہیں بڑھتے چلے جاتے ان کے زادِ راہ میں ام\nید اور اعتماد کی دو دھادی تلوار ضرور شامل ہوتی ہے۔ اسی تلوار کی مدد سے وہ اپنے راستے کے کانٹے کاٹتے چلے جاتے ہیں اور نئی منازل سَر کرتے چلے جاتے ہیں پُر امید اور خود اعتماد شخصیت کی موجودگی انہیں عام لوگوں سے منفرد بناتی ہے اور انہیں ایسا حوصلہ بخشتی ہے جو راہ میں حائل مشکلات سے نبرد آزما ہونے اور قابو پانے کا فن سکھاتا ہے۔ کامیاب لوگ دنیا کے سامنے اپنے بہتر ین شخصیت کا عکس پیش کرتے ہیں اور دیگر لوگوں کی بہترین صلاحیتوںسے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ ہر نیا دن اُن کے لئے زندگی کے نئے رنگ لے کر آتا ہے اور وہ کبھی مستقبل سے مایوس نہیں ہوتے ۔ دل میں اُمید کی شمع روشن کر کے یہ لوگ زندگی کے اندھیروں کو دور کرتے ہیں کیونکہ اِنہیں اپنی شخصیت اور صلاحیتوں پر پورا یقین ہوتا ہے ۔ پہلے وہ خواب دیکھتے ہیں پھر اُس خواب کو نظر میں رکھ کر باقائدہ منصوبہ بندی کرتے اورپھر اپنے منصوبوں کو عملی جامعہ پہناتے ہیں ۔ کامیاب لوگ ایک کامیابی کو بعد ٹہر نہیں جاتے فوراََ ہی نیا خواب، نئی منزل اِن کی نگاہوں میں گھر کرلیتی ہے یوں وہ قدم بہ قدم کامیابی کی شاہراہ پر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کراچی یونیورسٹی سے حاصل کیا۔
سوال:۔ ارشدصاحب! پہلے تو آپ ہمیں یہ بتائیں کے درس و تدریس کا باقائدہ آغاز کب سے کیا؟
جواب:۔ سب سے پہلے میں ایک بات جو آپ کوبتانا ضروری سمجھتا ہوں میں نے شعبہ درس و تدریس کا انتخاب اس لئے کیا کہ مجھے اپنے طالب علمی کے دور میں اپنی فیملی کو سپورٹ کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھنا تھا لہذا میں نے شعبہ تدریس کو اپناتے ہوئے اپنی عملی زندگی کاآغاز کیا اور مارچ ۱۹۹۹ءسے اس کاسلسلہ شروع ہو گیا اور مارچ ۲۰۰۲ء وہ یادگار دن ہے جو مین کبھی بھول نہیں سکتا ۔ مارچ کے مہینے میں ، میں نے اپنے اقراء ریئل اسلامک اسکول کی بنیاد رکھی اور جو بات میرے لئے قابِل فخر ہے کہ اسکول کا افتتاح میری والدہ محترمہ نے کیا اور آج والدین کی دعائوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اورنگی ٹائون مین تین کیمپس اور گلشِ اقبال میں چوتھا کیمپس کام کررہا ہے اور جسکی نگرانی الحمداللہ براہ ِراست میں خود کرتا ہوں۔
سوال:۔ آپ نے ایک نئی آرگنائزیشن کی بنیاد بھی رکھی ہے ۔ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
جواب:۔ جس دن میں نے اپنے اسکول کی بنیاد رکھی تھی اُسی دن سے میں نے اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ اگر کبھی موقع ملا اور حالات نے ساتھ دیا تو میں سماجی خدمات کی طرف ضرور آئوں گا۔ میں نے اسکول کےزمانے سے ہی فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا مثلا ً غریب و نادار بچوں کو اسکول میں فیس معاف کردیتا مستحقین اور بے سہارا لوگوں میں راشن پہنچانا دیگر یہ کے جس طرح بھی مجھ سے ممکن ہوسکا میں نے اپنے سماجی اور فلاحی کاموں کو جاری رکھا میرِی یہی سوچ پروان چڑھتی گئی اور پھر میں نے ستمبر 2017 میں محّبانِ کراچی شوشل آرگنائزیشن کا باقائدہ آغاز کردیا اور ہمارا یہ ادارہ دو سالوں سے اپنا کام کر رہا ہے اور ہمیں فخر ہے کہ محّبانِ کراچی شوشل آرگنائزیشن کراچی کے ہر ضلع میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے ۔ ہمارے اس ادارے میں مخلص اور جذبہ خدمت سے سرشارلوگ منسلک ہیں جو اپنے اپنے شعبہ میں بہترین صلاحیتو ںکا مظاہرہ کررہے ہیں محّبانِ کراچی سوشل آرگنائزیشن میں خواتین کا کردار بھی قابل تعریف ہے جو اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ہر طرح کی فلاحی کاموں کے لئے تیار رہتی ہیں ان میں ٹیچر، لکچرار ، ڈاکٹرز، سماجی و فلاحی ورکرز اور دیگر شعبے ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ۔ اس کے اغراض و مقاصد کا دائرہ کار بہت وسیع ہے میں آپ کو اس کے چند اہم با ت بتاتا ہوں کہ محّبانِ کراچی انسانیت کی تعمیر کرنے پر یقین رکھتی ہے جب انسانیت کی تعمیر ہوجاتی ہے تو مفلسی ، بے حسی اور بہت سے جرائم خود ہی دم توڑ جاتیں ہیں اور نتیجے میں تعلیمی ادارے ، مسجد ، مدرسہ ، دیگر فلاحی ، و سماجی، رفاہی، ادارے خود تعمیر ہوجاتے ہیں اور محبانِ کراچی ، شہرِ کراچی کا صحیح چہرہ پوری دنیا کو دکھانا چاہتا ہے ہر مثبت کام میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہر نہج پر کراچی میں بسنے والے تمام لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہےچاہے وہ سندھی ، بلوچی ، پٹھان، پنجابی یااردو بولنے والا ہوہر رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر کراچی میں رہنے والوں کی خدمت کرنا ہمارا منشور ہے
سوال:۔ سیاست کو آج کل منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے اس سوشل آرگنائزیشن کے پسِ پردہ کہیں آپ سیاسی مقاصد حاصل کرنا تو نہیں چاہتے؟
جواب:۔ بالکل نہیں ۔ اور میں یہ صاف لفظوں میں بتادینا چاہتا ہوں کہ محّبانِ کراچی کا یہ مقصد کبھی رہا ہے نہ رہے گا۔
سوال:۔ آپ اسکائوٹس، سول ڈیفیس اور صحافتی شعبہ میں بھی اپنی قابلیت کے جو ہر دکھا رہے ہیں اس کی وجہ شہرت کی تمنا تو نہیں ہے ؟
جواب:۔ جیسا کی میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ میں زمانہ طالب علمی سے ہی اسکائوٹس میں شامل رہا ہوں کیو نکہ یہ ادارہ دنیا بھر میں موجود ہے اور اپنا کام کر رہی ہے اور سول ڈیفنس میں میری شمولیت قومی جذبے کے تحت ہوئی۔ اسکول کے زمانے سی ہی لکھنے لکھانے کا شوق تھا اس لئے کئی مقامی اخبارات سے منسلک رہا ۔ اب بھی گاہے بگاہے یہ شوق پورا کرتا رہتا ہوں اگر وسائل دستیاب ہوئے اور میرے رب عزوجل نے چاھا تو بہت جلد ایک ٹی وی نیوز چینل کی بنیاد رکھوں گا۔
سوال:۔ آپ ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ اس اورنگی ٹائون مین بہت ساری آرگنائزیشن اپنا اپنا کام کررہی ہیں ۔ ان کے درمیان اپنی شناخت کو قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:۔ اصل میں انسان کی پہچان اور اس کی انفرادیت اس کا کام ہوتا ہے اور اُس کی نیت ہوتی ہے ۔ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورایقین ہے کہ جہاں یہ تمام سوشل ادارے اپنا کام کررہے ہیں انہی سوشل اداروں کی جُھرمُٹ میں محّبانِ کراچی شوشل آرگنائزیشن چاند بن کر اپنی آب وتاب کے ساتھ چمکتاودمکتا رہے گا انشاء اللہ ۔
سوال:۔ آپ کی زندگی بہت مصروف گزرتی ہے ۔ گھربار، بیوی بچے، اسکول، آرگنائزیشن، اور دیگر مصروفیات ان سب کاموں کو ایک ساتھ مینیج کرنا آسان نہیں ہوتاآپ اسے کس طرح ہنڈل کرتے ہیں؟
جواب:۔ میں نے اپنے بزگوں سے ایک بات سیکھی ہے کہ اگر انسان نمازوں کی پابندی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے وقت میں بڑی برکت عطا فرمادیتا ہے الحمداللہ میں دیگر تمام مصروفیات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے بعد اپنی نجی اور گھریلو ذندگی کو بھی بڑی کشادگی کے ساتھ وقت دیتا ہوں یہ میرے رب کا اور اس کے حبیبؐ کا مجھ پر خاص کرم ہے۔
سوال :۔ ہر شخض کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے چاہا جائے۔ آپ سے کسی نے چاہت کا اظہار کیا یا آپ نے کسی سے محبت کی ہے؟
جواب:۔ آپ کے اس سوال کے بارے میں ، میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے جسکے دل میں ساری محبتوں کے لئے الگ الگ درجہ بندی فرمادی ہے اب وہ چاہے بیوی ہو، والدین ہو، بہن بھائی ہو، یا دیگر رشتے۔ الحمداللہ میں نہ صرف اپنے گھرمیں بلکہ خاندان محلّے اور علاقے میں بھی چاہا جاتا ہوں۔ اور جہاں تک میرے چاہنے کا سوال ہے تو میں نے اپنی زندگی میں اپنے والدین کو ٹوٹ کر چاہا ہے اور ان کی کمی آج تک میری زندگی میں موجود ہے۔
سوال :۔ تعلیم اور تربیت انِ دونوں کے درمیان کمی آپ کو کہاں نظر آتی ہے؟
جواب:۔ بہت ہی بہترین سوال ہے آپ کا ۔ تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔ جس میں ابتدائی سات سال عمر تربیت کے لئے بہت معنی خیز ہیں جس میں بچے کی شخصیت کا ۸۰ پرسنٹ حصہ مکمل ہوتا ہے۔ اور اسی ۸۰ پرسنٹ کا اثر اسکی پوری زندگی میں نظر آتا ہے ۔ لہذااس عمر میں بچوں کو خاص توجہ و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
سوال:۔ عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا کہاں تک ضروری ہے۔ ہمارا دین عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
جواب:۔ عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے جبکہ مذہبی کچھ دائرہ کا رہے جسے کبھی عبور نہیں کرنا چاہئے ۔ فی زمانہ آزاد خیالی اور سیکولرزم کا زہر ہمارے نوجوانوں کو خوبصورت پیکٹ میں سجا کر دیا جارہا ہے۔ جس کے سدباب کے لئے محبانِ کراچی اس شعبے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔ ترقی اور بے حیائی دو الگ الگ شئے ہیں انشاء اللہ اگر ہمارے گھر کی خواتین دین اسلام کو سمجھ لیں تو معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔ میں اپنی بہن، بیٹیوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ قرآن شریف کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں عورتوں کے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیم و تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے اسلام عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں۔
سوال:۔ کوئی پیغام جو آپ دینا چاہتے ہوں؟
جواب:۔ میں اپنے نوجوان نسل کو آپ کی توسط سے یہ واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہر فلاحی اور سماجی کاموں میں اچھی نصیحتوں کے ساتھ بڑھ چڑھ کرحصہ لیں خواہ وہ محّبانِ کراچی کا پلیٹ فارم ہو یا کوئی اور جہاں آپ کو موقع ملے وہاں کھل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں کیونکہ وقت اور مواقع ایک ساتھ میّسر نہیں ہوا کرتے ۔ اس شعر کے ساتھ آپ کی اجازت چاہوں گا۔
الفاظ کے گروندے اشعار بن گئے ہیں
اوارہ خشک پتے گلزار بن گئے ہیں
اہل ادب کو یارب تسکین دے الہی
گانے بجانے والے فنکار بن گئے ہیں
شکریہ
تحریر: اظہر حسین انجم
انٹرویو: انیس پاشا۔
ڈائریکٹر : محبانِ کراچی